منکر ولایت پر عذاب الہی
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلک کر کے
مطالعہ کریں ۔ ۔ مہربانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ شخص یہ جانتا ہے کہ یہ حق ہے یہ سچ ہے، یہ صراطِ مستقیم ہے، یہ سبیل اللہ ہے، لیکن اس کے باوجود کہ وہ جانتا ہے پھر وہ حق کو جاننے کے باوجود اس کا انکار کر دیتا ہے تو ایسے شخص کو بھی قرآن نے کافر کہا ہے جیسے کہ حارث بن نعمان فہری، کلمہ گو بھی تھا، نمازی بھی تھا، روزہ دار بھی تھا، سب کچھ جو کچھ اسلام کے اصولی یا فروعی واجب الاَدا فرائض تھے وہ ان سے غافل نہیں تھا، وہ ان کو ادا کر رہا تھا لیکن رسول ص کی بارگاہ میں آ کر کیا کہا؟ کہ اگر تو نے اپنے اس چچا زاد بھائی علی ع کی خلافت کا اعلان، مولائیت کا اعلان اللہ کی مرضی سے بھی کیا ہے تو میں پھر بھی نہیں مانتا (کتاب کا نام نور الابصار حضرت علامہ شبلنجی کی لکھی ہوئی) یہ جاننے کے باوجود کہ اس کا اعلان محمد ص نے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔
رسول ص سے خود ہی اس نے یہ سوال کیا تھا کہ آیا تو نے جو علی ع کی مولائیت کا اعلان کیا ہے ءَ منک ام من ربک تو انے اپنی مرضی سے کیا ہے یا اپنے رب کے ارادے سے کیا ہے؟ تو رسول ص نے ارشاد کیا کہ یہ حکم میرے رب کا ہے لانے والا جبرائیل ہے اور پہچانے والا میں ہوں، تو یہ سن کر فولّیٰ اس نے رسول ص سے پشت پھیری، اور چلا اپنی ناقہ کی طرف اور پشت پھیر کر رفع راسہ الی السماء اس نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا اللھم ان کان محمد صادقاً اگر یہ کہنے میں کہ محمد ص نے علی ع کی مولائیت کا اعلان تیرے حکم پر کیا ہے تیرا محمد ص سچا ہے (اب میں یہاں رک گیا میں آگے نہیں پڑھ رہا چونکہ آپ بھی چپ کر گئے میں بھی خاموش ہو گیا، آپ اندازہ لگائیے میں یہاں کیا دینا چاہتا ہوں جو میں دے نہیں سکتا؟) اگر تیرا محمد ص یہ کہنے میں سچا ہے (کلمہ بھی پڑھ رہا ہے اور رسول ص کو نبی بھی مان رہا ہے اور پھر بھی کہہ رہا ہے کہ اگر تیرا محمد ص سچا ہے! پتہ چل گیا نہ کہ ایسے ذہن والے کتنے ہوں گے؟ نعرہ حیدری)
لیجئے اندازہ لگائیے کہ کہہ کیا رہا ہے؟ امتی ہونے کے باوجود، کلمہ گو ہونے کے باوجود کہہ رہا ہے کہ اگر تیرا محمد ص یہ کہنے میں سچا ہے، معلوم ہوا ذہنی طور پر وہ محمد ص کی نبوت پر جب سے کلمہ پڑھ رہا ہے شک کرتا چلا آ رہا ہے!
اگر تیرا نبی تیرا محمد ص سچا ہے تو بے شک آسمان سے (کہیں ہے شمازت) مجھ سے پر شعلہ آگ کا پھینک، (کہیں ہے حجر) کہ مجھ پر پتھر پھینک۔
مجھ پر آگے کا شعلہ پھینک مجھے جلنا منظور ہے لیکن علی ع کو مولا ماننا یہ مجھے گوارا نہیں! (دیکھا آپ نے مولائیت علی ع کے منکر نے اپنے لئے سزا چُنی)
تو اب تمام تفاسیر میں ہے کہ جیسے ہی وہ چار قدم آگے بڑھا کہیں ہے اوپر سے پتھر گرا علی راسہٖ اس کے سر پر، اور کہیں ہے کہ آگ کا شعلہ گرا جس نے اس کو جلا کر راکھ کر دیا۔
تو اب آیت کیا کہہ رہی ہے؟ سئل سائل بعذابٍ واقعٍ للکافرین لیس لہ دافعٍ، ایک سائل سوال کرنے والے نے سوال کیا اک ایسے عذاب کا کہ جس عذاب سے اسے کوئی بچا نہیں سکتا تھا، تو اللہ نے اسے کیا کہا؟ کافر کہا، کیوں کہا اسلئے کہ اس نے جاننے کے باوجود ماننے سے انکار کر دیا تھا! نعرہ حیدری
بہرحال یہ اس کو بھی اور اس کے ساتھی بھی سب اس سے واقف تھے کہ یتیمِ عبداللہ خاتم النبیین ہے، کیونکہ انجیل سے آگاہ تھے، اور انجیل میں موجود ہے جیسا کہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر مطبوعہ بیروت لبنان صفحہ 59 اندر کا کاغذ اخباری رنگ کا، باہر کی جلد میرون کلر کی، چمڑے والی رقیق پتلی جلد، اس میں علامہ نے اس آیت کی جب تفسیر لکھی ہے تو حوالہ دیتے ہیں انجیل کا آگے چل کر اس آیت کی سورہ نمبر 13 الرعد آیت علامہ نے ادھر لکھی ہے 30 نمبر کی وہ آیت کیا ہے اللہ ارشاد فرما رہا ہے:
الذین آمنوا و عملوا الصالحات وہ لوگ جو صاحبانِ ایمان ہیں اور جن کے دامن میں ایمان کے ساتھ ساتھ عملِ صالح بھی موجود ہے (کیونکہ اللہ صرف عمل قبول نہیں کرتا)
واہ صاحبانِ ایمان! مجھے تشریح کے لئے رکنا نہ پڑے کسی جگہ پہ، اللہ صرف عمل قبول نہیں کرتا بلکہ پورا قرآن پڑھ کر دیکھ لیں اللہ جب بھی قبول کرتا ہے عمل صالح قبول کرتا ہے، حارث بن نعمان فہری کے دامن میں عمل تھا! لیکن صرف عمل تھا، اللہ صرف عمل نہیں چاہتا بلکہ اللہ عمل صالح چاہتا ہے۔
اب یہاں آیت میں ہے الذین آمنوا وہ لوگ جو صاحبانِ ایمان ہیں، و عملوا الصالحات اور جن کے دامن میں اعمالِ صالحہ ہیں، ان کے لئے میں خود اللہ زبان بے زبانی سے اعلان کر رہا ہوں طوبیٰ لھم کہ ان کے لئے طوبیٰ ہے، و حسنُ مآب اور ایسے لوگوں کا انجام اور آخری ٹھکانہ میں اللہ خود بیان کر رہا ہوں خوب سے خوب تر، بہتر سے بہتر ، اچھے سے اچھا ہے۔
۔
نور الابصار ، تفسیر در منثور
Comments
Post a Comment