صحیح مسلم میں درج حدیث ثقلین کیوں نہیں پڑھی جاتی!۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلک کر کے
مطالعہ کریں ۔ ۔ مہربانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیعہ سنی سب علما نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے، پہلے سات سو سال میں نہ صرف شیعہ بلکہ شیعہ سنی دونوں علما نے اس حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ لکھا ہے جو میں نے پیش کیے:۔
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھلبیتی
حبیب خدا ص نے فرمایا میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اھل بیت ع
سب سے پہلے الطبقات الکبری میں ابن سعد نے اس حدیث کو بدل کر لکھا ہے، کہ میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اللہ کی کتاب اور اپنی سنت!۔
یہ حدیث سات سو سال کے بعد بدل کر لکھی گئی ہے اور آج اس بدل کر لکھی جانے والی حدیث پر کچھ برادران کا زیادہ زور ہے؟
جبکہ صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث ہے جو ہمارے ہاں پیش کیے جاتے ہیں، یعنی جس کتاب کو سارے مسلمان صحیح مانتے ہیں اس میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث لکھی ہے جو میں نے پیش کی۔ اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اھل بیت ع
صرف تین سوال ہیں میرے تمام عالم اسلام سے؟
حدیث ثقلین کیا ہے؟ الفاظ کیا ہیں؟ کتاب و عترت ہے یا کتاب و سنت ہے؟
پیغمبر اسلام ص نے کیا فرمایا؟ حدیث ثقلین کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ کتاب و عترت!۔
یہاں پر نبی ص نے قرآن و اھلبیت ع نہیں کہا!۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ کتاب و عترت چھوڑے جا رہا ہوں۔
علما کی موجودگی میں کہہ رہا ہوں کہ یہاں قرآن کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ کتاب کا لفظ استعمال کیا!۔
کتاب اللہ چھوڑے جا رہا ہوں اور اپنی عترت چھوڑے جا رہا ہوں۔
قرآن یعنی وہ جو سنایا تھا میں چھوڑے جا رہا ہوں یہ نہیں کہا!۔ فرمایا اللہ کی کتاب، اور کتاب کہتے ہی اسے ہیں جو مکتوب ہو۔اور وہ سننے والے سب عرب تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ لکھی ہوئی کہاں ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر کبھی بھی آپ مسلمانوں سے سنیں کہ اس نے جمع کیا یا اُس نے جمع کی کتاب!۔ تو سن لیں یہ رسول خدا ص اور آل رسول ع کے علاوہ کسی اور کو کریڈٹ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے!۔
عزیزان گرامی! تاریخ میں اور صحیح بخاری میں ان روایات کا اختلاف ہی بتلا رہا ہے کہ انہوں نے جمع ہی نہیں کی، پیغمبر اسلام ص جب خود فرما رہے ہیں کہ انی تارک فیکم الثقلین (میں بہت ذمہ داری سے بات کر رہا ہوں)
مرحوم آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب البیان فی تفسیر القرآن میں مفصل دلیلیں پیش کی ہیں ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے علما نے مفصل دلیلیں لکھی ہیں، وہ سب میرا موضوع نہیں ہیں، میں ایک دلیل دوں گا کہ اوروں نے قرآن جمع نہیں کیا، یہ قیامت تک اور ظہور تک لوگ قرآن پڑھتے رہیں اور ان لوگوں کے مقروض ہوں؟
سب سے بڑی لغت کی کتاب لسان العرب ابن منظور کی ہے البتہ یہ سب سے بڑا لغت نامہ بھی شیعہ کا لکھا ہوا ہے، امتیاز ہے شیعوں کو کہ جب سب سے بڑی ڈکشنری لکھی گئی اٹھارہ جلدوں پر لکھی گئی اور یہ لکھنے والے ابن منظور شیعہ ہیں اور آج سارے اھل سنت اور غیر مسلم بھی جب لغت نامہ اٹھاتے ہیں تو لسان العرب ہی اٹھاتے ہیں!۔ لسان العرب کو لکھنے والا شیعہ ہے علی ع کا۔
اھل بیت اور عترت میں فرق لکھا کہ اھل بیت کہتے ہیں گھر والوں کو اور عترت کہتے ہیں اخص اقربائہ یعنی جو اسے کے سب سے قریبی رشتہ دار ہوں۔
یعنی صرف رشتہ دار نہیں بلکہ جو سب سے قریبی رشتہ دار ہیں۔ بھئی رشتہ دار تو بہت تھے جنہوں نے رشتے دے رکھے تھے!۔ وہ سب کہہ سکتے تھے کہ پیغمبر ص کے اھل بیت میں شامل میں بھی ہوں یہ بھی ہے وہ بھی ہے!۔
لیکن پیغمبر ص نے کہا میرے قریبی ترین رشتہ دار، سب رشتہ دار نہیں بلکہ وہ جنہیں اللہ کہے گا یہ خون کا رشتہ ہے ٹوٹتا نہیں۔
تو پیغمبر ص فرما رہے ہیں کتاب اللہ و عترتی اھلبیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی ابدا
یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اگر میرے بعد ان دونوں سے متمسک رہے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔
اگر یہ سوچو نہ کہ ایک ہے اور ایک نہیں تو یقین کر لینا کہ دونوں نہیں!۔ یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے۔
چھٹے امام سے تفسیر صافی کے اندر روایت ہے امام فرماتے ہیں کہ روز قیامت چار پرچم بلند ہوں گے، چار علم، چار رایہ، رایہ بھی عربی کا لفظ ہے۔ وہ جو علم کے منکر ہیں وہ کہاں جائیں گے؟
پہلے پرچم تلے پیغمبر اسلام ص ہوں گے اور فرمائیں گے ثقلین کے متعلق سوال کرنے آیا ہوں قرآن و اھلبیت کا کیا کیا؟ جواب ملے گا نہ قرآن معلوم تھا ہمیں اور نہ اھل بیت ع ۔ تو پیغمبر اسلام ص کہیں گے تمہارے لئے شفاعت نہیں ہے۔
دوسرے گروہ سے پوچھیں گے کہ بتلاو قرآن و اھل بیت ع کا عقیدہ کیا رہا؟ تو یہ کہیں گے ہم قرآن کو بہت مانتے تھے لیکن اھل بیت ع کو نہیں مانتے تھے تو پیغمبر اسلام ص فرمائیں گے تمہارے لئے بھی شفاعت نہیں ہے۔
تیسرے گروہ سے سوال کریں گے کہ بتاو قرآن و اھل بیت ع کا کیا کیا؟ یہ کہیں گے اھل بیت ع کو مانتے تھے قرآن کو نہیں مانتے تھے۔ فرمائیں گے تمہارے لئے بھی شفاعت نہیں۔
چوتھے پرچم کے علمبردار ہوں گے علی بن ابیطالب!۔ ایک مرتبہ سوال کریں گے کہ بتاو قرآن و اھل بیت ع کے متعلق سوال کرنے آیا ہوں۔ تو سب کے سب کہیں گے ھم قرآن کی بھی تعظیم کرتے تھے اور اھل بیت ع کی بھی تعظیم کرتے تھے تو پیغمبر اسلام ص فرمائیں گے اے میرے بھائی علیؑ! انہیں حوض کوثر پر لے آئیے۔ انہی کے لئے جنت بھی ہے اور انہی کے لئے شفاعت بھی ہے۔
تو قرآن و اھل بیت ع ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں یہ کبھی جدا نہیں ہوں گے۔
۔
۔
صحیح مسلم
البیان فی تفسیر القرآن
لسان العرب
تفسیر صافی

Comments
Post a Comment