میں نے اصول الشریعہ کے آٹھویں باب میں جو پیغمبر خاتم ص کے معراج کے سلسلے میں ہے اس میں واضح کیا ہے کہ معراج جو پیغمبر اکرم ص کو خالق نے کرائی تھی یہ پیغمبر ص کے خصائص میں سے ہے کیونکہ یہ معراج آدم سے عیسی تک نہ کسی نبی کو کرائی اور نہ کسی ولی کو کرائی نہ کسی وصی کو کرائی۔
تو جب خالق اکبر اپنے آخری پیغمبر ص کو جس کا ذکر خدا نے سورہ اسراء میں بھی کیا ہے، سورہ نجم میں بھی کیا ہے، اور ہر جگہ ایک بندے کا ذکر کیا کہ:۔
سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا
خدا فرماتا ہے:۔
پاک و پاکیزہ ہے وہ خدا جو اپنے بندہ خاص کو لے گیا رات کے حصہ میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک۔
میں نے اپنی تالیف میں یہ ثابت کیا ہے کہ معراج پر صرف پیغمبر اکرم ص گئے تھے ان کے ساتھ کوئی اور نہیں گیا تھا، حیدر کرار کو پیغمبر اکرم ص نے حجت خدا سمجھ کر اپنے بستر پر لٹایا تھا، نبی وہاں گئے تھے اور علی ع یہاں تشریف فرما تھے لیکن قادر مطلق نے یہ اہتمام کیا تھا کہ جو کچھ نبی کو وہاں بلا کے دکھلایا تھا حجاب قدرت ہٹا کر ۔ ۔ علی ع کو بستر رسول ص پر سلا کر سب کچھ دکھا دیا تھا۔
اور دوسرا خداوند عالم نے معراج والی رات، لا مکان نے جو نبی کے ساتھ کلام کیا تھا، تو اس خالق اکبر نے جو کلام پیدا کیا تھا اس کا لہجہ علی ولی کے لب و لہجہ سے ملتا تھا۔
تو گویا نبی یہ سمجھ رہے تھے کہ گویا علی ع میرے ساتھ کلام کر رہے ہیں۔
تو خالق نے فرمایا یا رسول اللہ ص میں نے دیکھا تیری نظر میں علی ولی سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے تو اس لئے اِس عالم خلوت میں اس عالم وحدت میں، میں نے علی ولی کے لہجے میں تجھ سے کلام کیا تاکہ تیرا دل مانوس ہو جائے۔
تو میں نے بھی لکھا کہ خالق نے علی ع کے لہجے میں کلام کیا تھا، نہیں کی بات چھوڑیں ۔ ۔ کلام کیا تھا۔
Comments
Post a Comment